حوس پرست مم از قلم پہاڑوں کا شہزادہ قسط نمبر 10 میں ایک لمحے کے لئے گنگ ہو گیا۔ وہ اسے جانتی تھی اور اس حقیقت سے واقف تھی کہ میں اسے پسند کرتا ہوں ۔ ان ایام میں میں نے پوجا کو بے حد یاد کیا تھا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس سے رابطہ کروں اور معلوم کروں کہ وہ کس حال میں ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ برس پہلے میں اسے چھوڑ کر اچانک چلا گیا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کی بالکل خبر نہیں لی تھی۔ لیکن اس کی یاد مجھے اکثر آتی تھی۔ وہ تھی ہی ایسی۔ اسے آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا تھا۔ میں نے کچھ پوچھا ہے ۔ اس نے مجھے خاموش دیکھ کر ٹہوکا دیا۔ ہاں میں اکثر اسے یاد کرتا رہتا ہوں ۔ میں نے اعتراف کیا واہ کیا تمہیں اس سے محبت ہے؟ اس نے اگلا سوال کیا۔ مجھے جواب دینے میں دقت ہوئی۔ میں فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ مجھے مم کے سامنے اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے یا نہیں مگر پھر یہ سوچ کر میں نے اثبات میں سر ہلا دیا کہ اس کے سامنے جھوٹ بولنا بیکار ہو گا، کیونکہ وہ اپنے مقابل کے خیالات پڑھنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ہونہہ میرا اعتراف سن کر اس نے سر ہلایا پھر کہنے لگی ۔ میں نے سوچا ہے کہ یہ ایک کمی جو رہ گئی ہے اسے بھی پورا کر دوں ۔ تم تیار ہو جاؤ۔ میں پوجا کے ساتھ تمہاری شادی کروانے جا رہی ہوں ۔ کیا ؟ میں حیرت سے اچھل پڑا۔ تمہیں اتنی حیرت کیوں ہو رہی ہے بولی ؟“ اس نے سوال کیا۔ ظاہر ہے حیرت تو ہونی ہے۔ تم عورت ذات ہو۔ عورت سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن اپنے مرد کے ساتھ کسی دوسری عورت کی شراکت برداشت نہیں کر سکتی یہ میں تمہاری خوشی کی خاطر کر رہی ہوں ۔ آخر میں نے تم سے دوستی کی ہے ۔“ اس نے سرگوشی کی۔ یقین کرو تمہاری کسی بھی خواہش کو پورا کرنا میرے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تم مجھ سے جو خواہش کرو گئے وہ ضرور پوری ہوگی، لیکن اس کے لئے میری بھی ایک شرط ہے۔ وہ کیا ؟ میں نے حیرت سے آنکھیں پیپٹائیں ۔ یہی کہ میری دوستی کے جواب میں تم بھی حق دوستی ادا کرو گے میں اس کا وعدہ کرتا ہوں ۔ میں نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا۔ ایک اچھے دوست کی حیثیت سے میں تمہارا ہر کام فورا کروں گی۔ اس کے عوض تمہیں میرا صرف ایک کام کرنا ہوگا۔ خود مجھے وہ کام کرنے کی مجھے اجازت نہیں وہ کیا کام ہے؟ میں نے استفسار کیا۔ جب کام کا وقت آئے گا۔ اس وقت میں تمہیں بتادوں گی۔ فی الحال تم اسے کرنے کا وعدہ کر لو۔“ ٹھیک ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا وہ کام ضرور کروں گا۔ سوچ لو اس نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پراسرار سے لہجے میں کہا۔ ایک بار وعدہ کر لینے کے بعد اگر تم نے وعدہ خلافی کی تو ہماری دوستی، دشمنی میں بدل جائے گی ہو سکتا ہے پھر میں تمہیں کوئی نقصان پہنچادوں۔“ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور پیار سے اسے بانہوں میں لے لیا۔ اگلے ہی لمحے ہم ایک بار پھر ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔ میں نے سات آٹھ دن انتظار کیا کہ شاید مم از خود پوجا کا دوبارہ تذکرہ کرئے مگر وہ اس معاملے میں بالکل خاموش تھی ۔ آخر ایک رات جب وہ میرے پاس آئی تو میں نے جھجکتے ہوئے کہا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ایک دو روز میں کلکتہ کا چکر لگاؤں وہ کیوں؟“ اس نے سوال کیا۔ یونہی گھومنے پھرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ وہاں کچھ لوگوں سے بھی مل لوں گا۔“ میری بات سن کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھل گئی۔ اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگی۔ جن لوگوں سے تم ملنا چاہتے ہو ۔ وہ لوگ وہاں موجود ہی نہیں تو پھر جانے کا فائدہ ؟ کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ پوجا کلکتہ چھوڑ چکی ہے اور اس وقت دلی میں ہے ۔“ وہ دلی چلی گئی ہے؟ مگر کیوں ۔ اس نے کلکتہ کیوں چھوڑ دیا ؟ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ تمہارے اچانک غائب ہو جانے سے اسے بے حد رنج اور صدمہ پہنچا تھا۔ چھ سات ماہ وہ تمہاری منتظر رہی پھر مایوس ہوگئی ۔ زندگی اور اس کی دلچسپیوں سے اس کا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی تمام جائیداد اور دولت ایک آشرم کو عطیہ کی اور ہردوار چلی گئی۔ وہاں اس نے گیان دھیان اور پوجا پاٹھ میں دل لگا لیا تھا، مگر میں نے اسے ہندومت سے برگشتہ کر دیا ہے۔ اس کے لئے مجھے بڑے پاپڑ بیلنا پڑے۔ اب وہ مذہب اسلام کی طرف مائل ہے اور مجھے اُمید ہے کہ جلد ہی کلمہ پڑھ لے گی ۔ اس وقت وہ ایک بزرگ سید زادی بی بی کلثوم کے ساتھ خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دے رہی ہے۔ واقعی؟ ہاں میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں ۔“ تم نے اسے ہندومت سے برگشتہ کیوں کیا ؟“ ظاہر ہے تمہاری خاطر ۔ میں جانتی ہوں جب تک لڑکی مسلمان نہ ہو تم لوگ اس سے شادی نہیں کرتے۔“ میں تمہارا کس منہ سے شکر یہ ادا کروں۔ تم نے واقعی ایک بڑی الجھن کو حل کر دیا ہے۔ میں نے احساس ممنونیت سے کہا۔ بوبی صاحب۔ مم نے آپ سے دوستی کی ہے کوئی مذاق نہیں کیا ۔ اب دیکھتے ہیں اس دوستی کا جواب آپ کس طرح Poran Video
Related حوس پرست مم از قلم پہاڑوں کا شہزادہ قسط نمبر 10 میں ایک لمحے کے لئے گنگ ہو گیا۔ وہ اسے جانتی تھی اور اس حقیقت سے واقف تھی کہ میں اسے پسند کرتا ہوں ۔ ان ایام میں میں نے پوجا کو بے حد یاد کیا تھا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس سے رابطہ کروں اور معلوم کروں کہ وہ کس حال میں ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ برس پہلے میں اسے چھوڑ کر اچانک چلا گیا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کی بالکل خبر نہیں لی تھی۔ لیکن اس کی یاد مجھے اکثر آتی تھی۔ وہ تھی ہی ایسی۔ اسے آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا تھا۔ میں نے کچھ پوچھا ہے ۔ اس نے مجھے خاموش دیکھ کر ٹہوکا دیا۔ ہاں میں اکثر اسے یاد کرتا رہتا ہوں ۔ میں نے اعتراف کیا واہ کیا تمہیں اس سے محبت ہے؟ اس نے اگلا سوال کیا۔ مجھے جواب دینے میں دقت ہوئی۔ میں فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ مجھے مم کے سامنے اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے یا نہیں مگر پھر یہ سوچ کر میں نے اثبات میں سر ہلا دیا کہ اس کے سامنے جھوٹ بولنا بیکار ہو گا، کیونکہ وہ اپنے مقابل کے خیالات پڑھنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ہونہہ میرا اعتراف سن کر اس نے سر ہلایا پھر کہنے لگی ۔ میں نے سوچا ہے کہ یہ ایک کمی جو رہ گئی ہے اسے بھی پورا کر دوں ۔ تم تیار ہو جاؤ۔ میں پوجا کے ساتھ تمہاری شادی کروانے جا رہی ہوں ۔ کیا ؟ میں حیرت سے اچھل پڑا۔ تمہیں اتنی حیرت کیوں ہو رہی ہے بولی ؟“ اس نے سوال کیا۔ ظاہر ہے حیرت تو ہونی ہے۔ تم عورت ذات ہو۔ عورت سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن اپنے مرد کے ساتھ کسی دوسری عورت کی شراکت برداشت نہیں کر سکتی یہ میں تمہاری خوشی کی خاطر کر رہی ہوں ۔ آخر میں نے تم سے دوستی کی ہے ۔“ اس نے سرگوشی کی۔ یقین کرو تمہاری کسی بھی خواہش کو پورا کرنا میرے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تم مجھ سے جو خواہش کرو گئے وہ ضرور پوری ہوگی، لیکن اس کے لئے میری بھی ایک شرط ہے۔ وہ کیا ؟ میں نے حیرت سے آنکھیں پیپٹائیں ۔ یہی کہ میری دوستی کے جواب میں تم بھی حق دوستی ادا کرو گے میں اس کا وعدہ کرتا ہوں ۔ میں نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا۔ ایک اچھے دوست کی حیثیت سے میں تمہارا ہر کام فورا کروں گی۔ اس کے عوض تمہیں میرا صرف ایک کام کرنا ہوگا۔ خود مجھے وہ کام کرنے کی مجھے اجازت نہیں وہ کیا کام ہے؟ میں نے استفسار کیا۔ جب کام کا وقت آئے گا۔ اس وقت میں تمہیں بتادوں گی۔ فی الحال تم اسے کرنے کا وعدہ کر لو۔“ ٹھیک ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا وہ کام ضرور کروں گا۔ سوچ لو اس نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پراسرار سے لہجے میں کہا۔ ایک بار وعدہ کر لینے کے بعد اگر تم نے وعدہ خلافی کی تو ہماری دوستی، دشمنی میں بدل جائے گی ہو سکتا ہے پھر میں تمہیں کوئی نقصان پہنچادوں۔“ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور پیار سے اسے بانہوں میں لے لیا۔ اگلے ہی لمحے ہم ایک بار پھر ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔ میں نے سات آٹھ دن انتظار کیا کہ شاید مم از خود پوجا کا دوبارہ تذکرہ کرئے مگر وہ اس معاملے میں بالکل خاموش تھی ۔ آخر ایک رات جب وہ میرے پاس آئی تو میں نے جھجکتے ہوئے کہا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ایک دو روز میں کلکتہ کا چکر لگاؤں وہ کیوں؟“ اس نے سوال کیا۔ یونہی گھومنے پھرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ وہاں کچھ لوگوں سے بھی مل لوں گا۔“ میری بات سن کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھل گئی۔ اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگی۔ جن لوگوں سے تم ملنا چاہتے ہو ۔ وہ لوگ وہاں موجود ہی نہیں تو پھر جانے کا فائدہ ؟ کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ پوجا کلکتہ چھوڑ چکی ہے اور اس وقت دلی میں ہے ۔“ وہ دلی چلی گئی ہے؟ مگر کیوں ۔ اس نے کلکتہ کیوں چھوڑ دیا ؟ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ تمہارے اچانک غائب ہو جانے سے اسے بے حد رنج اور صدمہ پہنچا تھا۔ چھ سات ماہ وہ تمہاری منتظر رہی پھر مایوس ہوگئی ۔ زندگی اور اس کی دلچسپیوں سے اس کا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی تمام جائیداد اور دولت ایک آشرم کو عطیہ کی اور ہردوار چلی گئی۔ وہاں اس نے گیان دھیان اور پوجا پاٹھ میں دل لگا لیا تھا، مگر میں نے اسے ہندومت سے برگشتہ کر دیا ہے۔ اس کے لئے مجھے بڑے پاپڑ بیلنا پڑے۔ اب وہ مذہب اسلام کی طرف مائل ہے اور مجھے اُمید ہے کہ جلد ہی کلمہ پڑھ لے گی ۔ اس وقت وہ ایک بزرگ سید زادی بی بی کلثوم کے ساتھ خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دے رہی ہے۔ واقعی؟ ہاں میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں ۔“ تم نے اسے ہندومت سے برگشتہ کیوں کیا ؟“ ظاہر ہے تمہاری خاطر ۔ میں جانتی ہوں جب تک لڑکی مسلمان نہ ہو تم لوگ اس سے شادی نہیں کرتے۔“ میں تمہارا کس منہ سے شکر یہ ادا کروں۔ تم نے واقعی ایک بڑی الجھن کو حل کر دیا ہے۔ میں نے احساس ممنونیت سے کہا۔ بوبی صاحب۔ مم نے آپ سے دوستی کی ہے کوئی مذاق نہیں کیا ۔ اب دیکھتے ہیں اس دوستی کا جواب آپ کس طرح Poran Video Porno Videos